اندھیر نگری چوپٹ راج کا دوسرا نام ہے پاکستان۔ سندھ سندھیوں کا۔ بلوچستان بلوچوں کا۔ خیبر پختونوں کا۔ کشمیر کشمیریوں کا اور پنجاب پنجابیوں کا۔ پورے پاکستان میں صرف پنجاب ہی ایک واحد صوبہ ہے جہاں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہے۔ سندھیوں کے سندھ کا اور بلوچوں کے بلوچستان کا حال بے حال ہے۔ پاکستان میں زندگی گزارنا ایسا ہے جیسے منافق خودغرض لالچی بے حس بے ایمان ننگے بھوکوں کی جیل۔ اس جیل میں جو جتنا ننگا بھوکا ہے وہ اتنا ہی مزے میں ہے۔ پاکستان میں پانی نہیں بجلی نہیں قانون نہیں چوربازاری ذخیرہ اندوزی منافع خوری رشوت قتل غارت گری منافقت عام ہے۔ چھوٹا بڑا بوڑھا اور جوان سب روزےکی حالت میں بھی گالی گلوچ اور چھچوری گفتگو کو جاری و ساری رکھ کر اپنے دین ایمان کی ایسی کی تیسی کرتے رہتے ہیں۔
کراچی میں روزانہ درجنوں افراد قتل ہوجاتے ہیں مرجاتے ہیں لیکن ننگے بھوکے حکمرانوں قانون کے رکھوالوں مزہبی پیشواؤں اور قوانین پر عمل درآمد کروانے والے پر چٹکی برابر اثر نہیں ہوتا کہ جس شہر کو وہ ہمارا کراچی ہمارا کراچی کہتے نہیں تھکتے اس کا حال بدحال ہوتا جارہا ہے۔ ان ننگے بھوکوں میں سے کوئ مر کھپ جائے تو اوپر سے لیکر نیچے تک سارے ننگے بھوکے حکمران اور قانون نافض کرنے والے حرکت میں آجاتے ہیں۔ پاکستان پاکستان سے زیادہ منافقستان کفرستان لالچستان بن گیا ہے۔۔ پولیس سارے کالے دھندوں میں مائ باپ کا کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستانی پولیس بدمعاشی اور غنڈہ گردی میں ہندوستانی پولیس سے بھی چار ہاتھ آگے ہے۔ ٹریفک پولیس یعنی فارمی انڈے ہوں یا کالی وردی میں بھوکے بھیڑیئے دونوں چوروں ڈاکوؤں اور سیاسی جماعتوں کے غنڈوں کو قانونی تحفظ فراہم کرتے ہیں اور سڑکوں پر جگہ جگہ کونے کھڈڑوں میں کھڑے ہوکر آنے جانے والی موٹرسائکل کار ٹرک کو کاغذات کی جانچ پڑتال کے نام پر 50 سے 5000 ہزار تک کی رشوت بندوق کی نوک پر طلب کرتے ہیں اور نہ دینے کی صورت میں گاڑی ضبط کرنے یا جیل میں پھنسانے کی دھمکی دیتے ہیں۔ رینجرز کھڑے تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ فوجیوں نے کنٹونمنٹ کے نام سے اپنے الگ علاقے بنالیئے ہیں جو امن و امان کے لحاظ سے سب سے بہتر ہیں۔۔ کراچی میں جو کچھ بھی افراتفری ہے وہ سب خفیہ ایجنسیوں اور فوج کے علم میں ہیں لیکن فوج اس وقت تک حرکت میں نہیں آتی جب تک فوجیوں کے مفادات پر ضرب نہ پڑے۔ نواز شریف حکومت میں آتا ہے تو اپنے پنجاب میں بہت سارے ترقیاتی کام کراتا ہے ۔لیکن سندھ اور بلوچستان کی بدبخت سیاسی اور مذہبی جماعتیں سندھ اور بلوچستان میں حکومت میں یا حکومت سے باہر دونوں طرح عوام کو کوؤں اور گدھوں کی طرح نوچنے کسھوٹنے میں مصروف رہتی ہیں۔پی پی پی اور دیگر سندھی قوم پرست جماعتیں کراچی کو اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھتے ہیں لیکن سندھ کو ترقی یافتہ اور پڑھا لکھا سندھ بنانے کے بجائے جہالت بے روزگاری غربت افلاس ڈاکو راج اور وڈیرہ راج کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ یہ جاہل وڈیرے چاہتے ہی نہیں کہ سندھ ترقی کرے۔۔ بلوچستان کی حالت بھی یہی ہے۔ بلوچ سرداروں نے بلوچستان کو پچھلے تیس چالیس سال سے بربادی تباہی کے اندھیروں میں پھنسایا ہوا ہے۔ پھر روتے رہتے ہیں کہ وفاقی حکومت بلوچستان میں ترقیاتی کام نہیں کراتی۔ نکمے نالائق نا اہل اور نکھٹو ۔ اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے والے جہالت میں اور عوام دشمنی میں غیر مسلمان سے دس ہاتھ آگے ہیں۔ ایسے بدبخت حاکموں سے کافر حکومت اچھی جو عوام کی فلاح و بہبود کے کام کرتی ہے اور عوام کو جاہل چودھریوں وڈیروں سرداروں اور ملکوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتی اور قوانین بناکر ان پر سب سے عمل کرواتی ہے اور جہاں لوگوں کے ساتھ ظلم و ناانصافی نہیں ہوتی۔ کم از کم ایسا نہیں ہوتا جیسا پاکستان میں چالیس پچاس سال سے ہو رہا ہے۔ پورے پکستان میں سال بھر میں 2 سے 4 کھرب کی لوٹ کھسوٹ ہوتی ہے۔ اگر یہ ترقی پر خرچ ہوتے تو پاکستان دنیا میں مال و دولت اور علم و ہنر میں امریکہ یورپ سے کم نہی ہوتا۔ کراچی میں پورے پاکستان سے لوگ روزگار کیلئے آتے اور رہتے ہیں۔ دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے لوگوں کی اکثریت اپنے گاؤں گوٹھوں کا کلچر بھی ساتھ لے آئے ہیں جس کی وجہ سے پورے کراچی میں شہری نظام برباد ہوگیا ہے۔ لوگ اتنے ہوگئے ہیں کہ دن رات کے چوبیس گھنٹھوں میں سے سولہ اٹھارہ گھنٹے سڑکیں مارکیٹیں اور رہائشی علاقے گاؤں گوٹھ سے آئے ہوئے لوگوں سے کھچا کھچ بھرے رہتے ہیں۔ ۔ کراچی پاکستان کیلیئے سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہے۔ ہر سیاسی جماعت کی شدید خواہش ہے کہ بس کیسے بھی کرکے کراچی کو اپنے قابو میں رکھیں اور لوٹ مار کرتے رہیں۔ بدمعاشی کی شروعات ایم قیو ایم نے کی ۔ ایم قیو ایم اردو بولنے والوں کی بہتری اور سیاسی معاشی معاشرتی حقوق کے لئے بنی لیکن جلد ہی الطاف حسین کے زیر قیادت ایم قیو ایم نے اردو غیر اردو سب کے ساتھ مار پیٹ لوٹ کھسوٹ اور پاکستان سے غداری کے کام کرنے شروع کردیے۔۔ ایم قیو ایم کا شروع میں جھگڑا سندھیوں سے شروع ہوا پھر بعد میں دیگر صوبصوں سے آکر کراچی میں مستقل رہائش اختیار کرنے والوں کیساتھ ۔ شروع شروع میں دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے افراد کی تعداد کم تھی لیکن بدقسمتی یا خوش قسمتی سے آج کراچی اور کراچی کے چاروں اطراف اندرون سندھ اور دیگر صوبوں سے آئے ہوئے افراد کی پوری کی پوری پکی آبادیاں قائم ہوچکی ہیں جہاں جاکر آپ کو ایسا لگے گا جیسے آپ پاکستان سے باہر کسی اور ملک میں گھس گئے ہیں ۔ان علاقوں میں رہنے والے آپ کو ایسی نظروں سے دیکھیں گے کے جیسے آپ کسی علاقہ ممنوع میں غلطی سے داخل ہوگئے ہیں ۔آپ کی خیریت اسی میں ہوتی ہے کہ آپ اپنا کام کرکے جلد از جلد ان جاہلوں کے علاقے سے باہر نکل جائیں جو بذات خود کراچی میں غیر قانونی طور پر رہائش پزیر ہیں۔ ان لوگوں نے جہاں خالی زمین دیکھی وہاں قبضہ کرکے پکے گھر بنالئے پھر تھوڑا تھوڑا کرکے اپنے گھروں کے باقی افراد کو بھی بلالیا۔ اور یوں آہستہ آہستہ دیگر صوبوں سے آئے ہوئے افراد نے بڑی بڑی قیمتی زمینوں پر غیر قانونی گھر دکانیں کارخانے جوئے کے اڈے شراب اور منشیات کے اڈے قائم کرلیے۔ کراچی کی پولیس تو پہلے سے ہی بکاؤ مال ہے ۔ چوروں ڈاکوؤں کی رکھوالی۔ ان حرام خوروں کو بس پیسہ چاہئے اپنی موٹی موٹی تھوندیں بھرنے کیلئے۔ بیوی بچوں کی ناجائز خواہشات پوری کرنے کیلئے ۔ تو ان حرام خور جہنمی پولیس والوں نے ایسے تمام افراد کو قانونی تحفظ فراخم کردیا جو انہیں اپنی ناجائز آمدنی میں سے ہزاروں لاکھوں ماہانہ یا ہفتہ واری دیتے ہیںں ۔
No comments:
Post a Comment